Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom Lyrics
Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom Lyrics In Urdu
Allama Iqbal
علامہ اقبال نے خوبصورت اشعار کی صورت میں حضرت مولانا روم کا مشہور واقعہ قلمبند کیا ہے
جس کے بعد آپ نے درس و تدریس کو چھوڑ کر حضرت شمس تبریزی کی صحبت اختیار کر لی
اےکہ تو علم حاصل کرنے میں مصروف ہے
کیا تو نے پیر روم کا پیغام بھی سنا ہے
مولانا روم کہتے ہیں کہ
علم کو اگر بدن پر لگایا جائے تو یہ سانپ بن جاتا ہے
لیکن علم کو اگر دل سے جوڑا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے
تو مولاناروم کے قصے سے تو واقف ہے
وہ جو روم کہ شہر حلب مین علوم کا درس دیا کرتے تھے
اُن کے پاؤں عقل کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
اُن کی کشتی عقل کی تاریکیوں اور طوفانوں میں گھری ہوئی تھی
وہ ایسے موسی تھے جو عشق کے طور سے نا واقف تھا
عشق اور عشق کے طور اطوار سے بے خبر تھے
وہ تشکک اور اشراق جیسے فلسفہ کے موضوعات پر گفتگو فرماتے
علوم کے موتی پروتے اور اس کے حصول پر زور دیتے تھے
اُنہوں نے بہت سے پیچیدہ مسائل کی گھتیاں سلجھائیں
اپنے نور فکر سے علم کا حصول ہر خاص و عام پر آسان کر دیا
اُن کے گرد ہر وقت کتابوں کا ڈھیر ہوتا
ان کے ہونٹوں پر ہر وقت کتابوں کی تشریحات ہوتیں تھیں
حضرت شمس تبریزی اپنے مرشد کے حکم پر
مولاناجلال الدین رومی کے مدرسے پر آئے
کہا کہ یہ شورو شرابہ اور غل غپاڑہ کیا ہے؟
یہ وہم و قیاس ،شک شبہ ،سمجھنا کیا ہے؟
مولانا روم نے کہا کہ مولوی چپ ہو جا
تو عقل مندوں کی باتوں کا مذاق نہ اُڑا
تو اُلٹے پاؤں میرے مدرسے سے نکل جا
میر ے قول و فعل سے تیرا کوئی لینا دینا نہیں
میری باتیں تیری عقل سے اونچی ہیں
یہ عقل کے شیشے کو روشن کرتیں ہیں
شمس تبریزی کے سوز کی گرمی مولانا کی باتوں سے بڑھ گئی
ان کی جان میں چھپی آگ ظاہر ہو گئ
اُنہوں نے جلال سے بھری آنکھ زمیں پہ ڈالی
ان کے پھونک سے مٹی شعلہ بن گئی
دل کی آگ نے عقل و فہم و ادراک کا کھلیان جلا دیا
اس فلسفی کا دفتر جل کر راکھ ہو گیا
مولانا روم جو کہ اُس وقت تک عشق کی کرامتوں سے نا واقف تھے
اور عشق کے نغموں اور رازوں سے بھی بے خبر تھے
بولے کہ تو نے یہ آگ کیسے جلا لی
تو نے ارباب علم و حکمت کا نایاب خزانہ جلا ڈالہ
شمس تبریز بولے کہ اے بظاہر مسلم مگر عملا انکاری
یہ ذوق و شوق اور عشق کی گرمی کہ باعث ہے لیکن تیرا اس سے کوئی کام نہیں
میرا حال تیری سمجھ سے بالا تر ہے
میرا شعلہ پارس پتھر سونا ہے
Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom Lyrics In ...
اے کہ باشی در پے کسب علوم
با تو می گویم پیام پیر روم
“علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود”
آگہی از قصہ اخوند روم
آں کہ داد اندر حلب درس علوم
پائے در زنجیر توجیہات عقل
کشتیش طوفانی طلمات عقل
موسی ے بیگانہ سینائے عشق
بے خبر از عشق او از سودائے عشق
از تشکک گفت و از اشراق گفت
وز حکم صد گوہر تابندہ سفت
عقدہائے قول مشائیں کشود
نور فکرش ہر خفی را وا نمود
گرد و پیشش بود انبار کتب
بر لب او شرح اسرار کتب
پیر تبریزی ز ارشاد کمال
جست راہ مکتب مُلا جلال
گفت “ایں غوغا و قیل و قال چیست
ایں قیاس و وہم و استدلال چیست؟”
مولوی فرمود “ناداں لب بہ بند
بر ملاقات خرد منداں مخند
پائے خویش از مکتبم بیروں گذار
قیل و قال است ایں ترا باوے چہ کار؟
قال ما از فہم تو بالا تر است
شیشہ ادراک را روشن گر است”
سوز شمس از گفتہ ملا فزود
آتشے از جان تبریزی کشود
بر زمیں برق نگاہ او فتاد
خاک از سوز دم او شعلہ زاد
آتش دل خرمن ادراک سوخت
دفتر آں فلسفی را پاک سوخت
مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
ناشناس نغمہائے ساز عشق
گفت: “ایں آتش چساں افروختی
دفتر ارباب حکمت سوختی”
گفت شیخ اے مسلم زنار دار
ذوق و حال است ایں ترا باوے چہ کار
حال ما از فکر تو بالا تر است
شعلہ ما کیمائے احمر است
0 Comments
please do not enter any spam link in the comment box.
Emoji